دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کیلئے لیفٹننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ جیسے مشیر کی ضرورت ہے:دفاعی تجزیہ نگار آغا اقرار ہارون
ٹی ٹی پی کے بارے پالسی بناتے وقت پاکستان کا مفاد سب سے پہلے یاد رکھیں،پی ٹی وی کے پروگرام میں خیالات کا اظہار
شعبہ مانٹرنگ: پاکستان کے معروف دفاعی تجزیہ نگار اور وسطی ایشیا امور کے ماہر آغا اقرار ہارون نے کہا ہے کہ اب ہمیں فیصلہ کرلینا چاہیئے کہ ہمیں پاکستان ،پاکستان کیلئے بچانا ہے کہ افغانستان کو بچانے کیلئے۔یہ بات ان خیالات کا اظہار اْنہوں نے پی ٹی وی پر ’قومی سلامتی کمیٹی‘ کے حالیہ اجلاس پرنشر ہونے والے ایک پروگرام کے دوران کیا۔دفاعی تجزیہ نگار آغا اقرار ہارون نے کہا کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ قومی سلامی کمیٹی کے اجالاس میں ایک واضح اور درست موقف اپنایا گیا ہے کہ پاکستان،پاکستان کیلئے ہے اور اسکی سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔کیونکہ اس سے قبل شاید یہی نظر آتا تھا کہ پاکستان افغانستان کیلئے بنایا گیا ہے۔
آغا اقرار ہارون نے نیکٹا کی زبوں حالی کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ یہ بڑے افسوس اور دکھ کی بات ھے کہ ایک ادارہ تو بنا دیا گیا ہے لیکن نہ تو اسکا کوئی بجٹ ھے اور نہ ہی مناسب وسائل۔کیا یہ بات کسی کو نظر نہیں آتی کہ وسائل اور بجٹ کے بنا کوئی ادارہ کارکردگی کیسے دکھا سکتا ھے۔نیکٹا کی حالت کا اسی بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ھے کہ وہ صحافیوں اور تجزیہ نگاروں سے رپورٹس مانگ تانگ کر اپنا کام چلا رھے ہیں۔ماضی میں پی ٹی آئی کی حکومت نے اس ادارے میں ایسے بندے مشیر بنا دئیے جو امریکی شہری تھے۔اْنہوں نے وہ وقت بھی یاد دلایا جب اس ادارے کے مشیر لیفٹننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ ہوتے تھے جہنوں نے بلوچیستان میں دہشت گردی کے خلاف باقاعدہ جنگ جیتی اور اپنی کارکردگی کی بنا پر اْنہیں مشیر کے عہدہ پر تعینات کیا گیا۔اْنہوں نے کہا کہ اگر ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا ھے تو ہمیں نیکٹا کے دٖفتر کو مضبوط کرنا ہوگا اور اْنہیں بجٹ دینا ہوگا۔امریکہ سے ادھار بندے لیکر یہ ادارہ مضبوط ہونے کی بجائے کمزور ہوا ھے۔
پاکستان کی جانب سے افغانستان کے معاملات میں ملوث ہونے کے بارے اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے اْنہوں نے کہا کہ ہم افغانستان کے معاملات میں اس طرح ملوث ہوجاتے کہ پاکستان کے مفادات کو پس پشت ڈال دیا جاتا ھے پاکستان دشمن کو مارنے کی بجائے اْسکے بچوں کو پڑھانے کی باتیں کرتا حالانکہ دشمن ہمارے بچوں کو مارتا ھے۔ہماری فوج کے جوان ہمارے بچے ہیںاور دشمن کو کبھی بھی اس پر رحم نہیں آیا۔اْنہوں نے مزید کہا کجہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ دشمن کو دشمن سمجھ کر مارا جائے اور آپ اْسکے بچوں کو پڑھانے کی باتیں کرتے ہیں۔
آغا اقرار ہارون نے کہا کہ ہمیں افغانستان کے مسلے پر ایک واضح اور ٹھوس موقف اپنانا پڑئے گا ہم زہادہ دیر تک گومگو کی کفییت کا شکار نہیں ہوسکتے۔
دفاعی تجزیہ نگار نے پرگروام کے شْرکا سے تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گردی کی کاروائیوں اور ان سے مذاکرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسلہ اتنا آسان نہیں جتنا ماضی میں یا اب بھی سمجھا جارھا ہے۔ماضی میں جب ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرنے کے بارے فیصلہ کیا گیا تو میں نے اْس وقت بھی بہت پروگرامز میں اپنے تجزیہ کرتے ہوئے اس فیصلہ سے اختلاف کیا تھا اور خبردار کیا تھا کہ اسکے نتائج خطرناک ہونگے اور وقت نے ثابت کیا کہ ایسا کوئی بھی فیصلہ ملکی سلامتی کیلئے درست ثابت نہ ہوا۔کیونکہ دنیا بھر میں یہ دیکھا گیا گیا ہے کہ جب بھی آپ کسی دہشت گرد سے یا تنظیم سے بات کرتے ہیں تو وہ سمجھتا ھے کہ ریاست خائف ہوکر اس سے مذاکرات کرنا چاہ رہی ہے جس سے ملکی سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔مذاکرات کی پیش کش دراصل دہشت کو اعتماد دیتی ھے کہ اْسکی برتری کو تسلیم کر لیا گیا ھےاور پھر اسکا نقصان بھی ہوتا ھے۔
اگر ماضی میں دیکھا جائے تو مولوی فضل اللہ تب کنٹر میں رہ رھا تھا جب افغانستان پرطالبان کا قبضہ تھا۔تب ہمیں یہ بتایا گیا کہ اْسے بھارت کا آشیرباد حاصل ھے اگر ایسا تھا تو افغان طالبان مولوی فضل اللہ کو کیوں پناہ دئیے ہوئےتھے۔اس نکتے پر اس وقت پاکستان میں کسی نے بات نہیں کی یا شاید مقدر حلقوں نے بات کرنے ہی نہیں دی۔اْنہوں نے پالسی سازوں پر زور دیا کہ وہ افغانستان اور ٹی ٹی پی کے بارے پالسی بناتے وقت پاکستان کا مفاد سب سے پہلے یاد رکھیں۔