تحریر: مطیع اللہ خان
حالیہ دنوں میں عمران خان کی امریکی کانگریس خاتون میکسین مور واٹرز کے ساتھ ایک آڈیو گفتگو کوبنیاد بنا کر طنز کے نشتر چلائے گئے کہ ایک طرف عمران خان حکومت سے اپنی برطرفی کا الزام امریکہ پر لگاتا ہے اور انہیں مخاطت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہم کوئی تمہارے غلام ہیں کہ جو تم کہو گے وہی ہم کریں گےاور دوسری طرف اسی امریکہ سے مدد کی بھیک مان رہا ہے۔۔ جب پراپیگنڈا اپنے عروج پر ہو اورمقصد صرف ایک شخص کوملکی تمام مسائل کی جڑ قرار دے کر رسوا کرنا اور سیاست سے بے دخل کرنا ہو تو ایسی مضحکہ خیز تشبہیات جوڑنا اور خود سے مفروضے گھڑنا کوئی عجوبہ نہیں۔۔۔۔۔ حالت جب سرکار کی اپنی یہ ہو کہ جس سفارتی سائفرپر دو نیشنل سیکورٹی کے اجلاس کیے جائیں اور پی ٹی آئی کی جانب سے پیش کئے گئے اس خط کے مندرجہ جات کو مکمل طور پر تسلیم بھی کیا جائے اورملکی معاملات میں امریکہ کی مداخلت پر اس کے سفیر کو بلا کر احتجاج بھی ریکارڈ کروایا جائے اور بعد میں کہا جائے کہ وہ تو محض کاغذ کا ایک ٹکڑا تھا تو اس سے بڑی بدیانتی اور ستم ظریفی اور کیا ہو گی۔۔۔۔۔ مزید یہ کو صدر پاکستان تک کی جانب سے لکھے گئے خطوط کے باوجود سائفرپر تحقیقات ہی نہ کروائی جائیں تو۔۔۔۔۔ واضح رہے کہ2011 میں جسٹس فائز عیسی کی سربراہی میں امریکہ اور سفارتی امور سے جڑے ایک میمو اسیکنڈل کیس میں ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کیا گیا تھا اور اس کی رپورٹ میں منظر عام پر لائی گئی تھی لیکن اب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیر واپس عمران خان کی امریکی کانگریس کی رکن (جو کہ وہاں صرف ایک قانون ساز ادارے کی رکن ہیں اورانتظامیہ کا حصہ بھی نہیں ہیں) کے ساتھ گفتگو پر آتے ہیں جس میں عمران خان اس خاتون کو کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں اس وقت آئین نام کی کوئی چیز نہیں ہے، ملک کی سب سے مقبول جماعت کو کچلا جا رہا ہے اور انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے۔ ٰعمران خان نے ان سے کہا کہ وہ اپنی سطح پر خود بھی تحقیق کروائیں اور پاکستان میں رول آف لا اور آئین کی پاسداری کے لئے آواز اٹھائیں۔۔ اس آڈیو گفتگو کو ریکارڈ اور پھر لیک کس نے کیا اس پر سوالات الگ سے اٹھتے ہیں۔۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ایک امریکی کانگریسی رکن کے ساتھ گفتگو میں پاکستان میں آئین کی بالادستی اور انسانی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے کی استدعا کرنا بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کی دعوت دینے کے ذمرے میں آتا ہے؟ یا ایسا کرنے کا مطلب امریکہ کی غلامی کو قبول کرنا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر ہم امریکی وزارت خارجہ وغیرہ کی پریس ٹاک میں پاکستان میں جمہوریت اورآئین کے حوالے سے ریمارکس پر اسے ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیکر ان سے احتجاج کیوں نہیں کرتے؟ دنیا کی مختلف تنظیموںکی جانب سے پاکستان میں کرپشن، جمہوریت اور انسانی حقوق وغیرہ کے حوالے سے رپورٹس اور گفتگو کو ہم ملکی اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیکر انہیں رد کیوں نہیں کرتے؟ کیوں ہمارا میڈیا ان غیر ملکی رپورٹس وغیرہ پر حکومت وقت کو برابھلا کہتا ہے؟ اور پھر ہمارے جمہوریت اور انسانی حقوق کے چیمپئین صحافی پاکستان میں اپنے من پسند اور ایک سوچ رکھنے والے صحافیوں کی گرفتاری یا قتل پر غیر ملکی صحافی تنظیموں کو ٹویٹر پر ٹیگ کیوں کرتے ہیں؟ کیا ایسا کرنے سے وہ بھی ملکی بدنامی یا دوسروں کر اپنے ہی ملک کے معاملات میں گھسنے کی دعوت نہیں دے رہے ہوتے؟ کیا ملکی صحافیوں کے مختلف غیر ملکی جریدوں میں پاکستان کے نامساعد حالات کے بارے میں لکھنے اور وہاں کی رائے عامہ کی یوں ذہن سازی کرنے سے بھی ملک دنیا میں بدنامی کا باعث نہیں بنتا؟ کیا کسی بھی بیرونی طاقت کا پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے لئے آواز بلند کرنا یا وہاں کے کسی بااثر ادارے یا شخصیت کو یوں کرنے کا کہنا بھی بالکل ایسے ہی ہے کہ وہ طاقت ور ملک ہمیں حکم دے کہ ہم اپنے سفارتی تعلقات دوسروں کے ساتھ کیسے رکھیںاور ملک میں کسی بھی شخص کو اقتدار میں لانے یا بے دخل کرنے کا عمل بھی اس کی منشا کے مطابق کیا جائے؟ تحریک انصاف اور عمران خان کی طرز سیاست پرکچھ معاملات میں یقینا سخت تقنید بنتی ہے اور کرنی بھی چاہئے لیکن یوں ان سے جڑی ہر چیز کو بلا وجہ متنازعہ بنانا اور اس پر پھر بھر پور پراپیگنڈا کرنا محض ایک سوچی سمجھی سازش یا منصوبے کا ہی حصہ نظر آتا ہے۔۔۔ اب جہاں بیانیہ یہ ہو کہ بطور وزیر اعظم عمران خان کے مختلف غیر ملکی رہنمائوں کے ساتھ ملاقات کے دوران ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھنے کی وجہ سےملکی سفارتی تعلقات کو بہت ٹھیس پہنچی اوردنیا میں ناصرف ہماری جگ ہنسائی ہوئی بالکل ہم اکیلے بھی رہ گئے تھے تو اس سے ہماری فکری پستی اور ایک شخص سے نفرت وبغص کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضروری اعلان
اس مضمون/رائے/تبصرے میں بیان کردہ خیالات اور آراء مصنف کے اپنے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ ڈی این ڈی تھاٹ سینٹر اور ڈسپیچ نیوز ڈیسک (ڈین این ڈی) کی سرکاری پالیسی یا پوزیشن کی عکاسی کریں۔ تجزیہ میں کیے گئے مفروضے ڈی این ڈی تھاٹ سینٹر اور ڈسپیچ نیوز ڈیسک نیوز ایجنسی کی پوزیشن کے عکاس نہیں ہیں۔